دنیا بھر بشمول پاکستان میں ہر سال اکتوبر میں ”بزرگوں کے احترام کا دن“منایا جاتا ہے تاکہ نئی آنے والی نسل کو بھی اس بات کا علم ہو کہ اپنے بزرگوں یا اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام اور عزت کرنا کتنا ضروری ہے اور ہمارے دین میں تو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی حکم دیا ہے :(ترجمہ)”تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔
اگر تمہارے سامنے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ نرم دلی وعجزو انکساری سے پیش آنا“۔اسی طرح ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:”بڑوں کی تعظیم دتوقیرکرو اور چھوٹوں پر شفقت کروگے تو تم جنت میں میری رفاقت پالوگے۔ “ آج کل کے نوجوان بچے جو اپنے ہی والدین کو جھڑک دیتے ہیں تو یہ دوسرے کسی اور بزرگ کا احترام کیسے کریں گے؟اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کو جھڑکنے کے عمل کو سخت نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :“ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیروبرکت ہے۔پس وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی بے ادبی کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے۔ جس طرح اللہ پاک کی نعمتوں کا شمار کرنا ناممکن ہے اسی طرح والدین کے پیار کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ یہ واحد رشتہ ہے جس میں لالچ وحرص نہیں ہے بلکہ بے پناہ خلوص پیاراور محبت ہوتی ہے۔ماں باپ کتنی محنت اور ناز نخرے سے اپنی اولاد کو پالتے ہیں اور جو مشکلات ماں باپ برداشت کرتے ہیں ،اولاد اگر ساری زندگی ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر بھی خدمت کرے تو بھی ماں کی ایک رات کی تکلیف کا سلسلہ نہیں دے سکتی۔اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اللہ رب العزت نے جتنے بھی حقوق العباد کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے زیادہ اہمیت والدین کے حقوق کودی ہے ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ والدین سے بڑھ کرواجب الاحترام اور کوئی رشتہ نہیں۔ والدین کی خدمت وعزت واحترام کوجہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد پر جانے کی اجازت طلب فرمائی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟اس صحابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:جی ہاں دونوں حیات ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم جاؤ اور انہی کی خدمت کرو۔ ایک اورا ہم بات بھی کرتا چلوں کہ خطبہ کیلئے ہمارے آقا رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں منبر پر چڑھ رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا:آمین!جب دوسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا:آمین اور جب تیسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو پھرکہا :آمین!صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نہایت ادب واحترام سے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!یہ کیا ماجرا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے تھے اور انہوں نے کہا کہ وہ شخص تباہ وبرباد ہو جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت نہ کی تو میں نے کہا آمین۔ اور پھر حضرت جبرائیل امین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ شخص تباہ وبرباد ہو جس نے رمضان کے روزوں کو پایااور نہ رکھے تو میں نے کہا آمین۔اور پھرجبرائیل امین علیہ السلام نے کہا کہ وہ شخص بھی تباہ وبرباد ہو جس کے سامنے میرانام لیا گیا اور اس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا ،تومیں نے کہا آمین ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی تباہی و بربادی کی خبر دے دی جس نے اپنے والدین کی خدمت نہ کی۔ ہمارے آقا رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ جس نے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی اولاد جب بھی رحمت و محبت کی نظر سے ماں باپ کو دیکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہر نظر پر ایک مقبول حج کا ثواب عطا فرماتاہے۔ مندرجہ بالاباتیں ہم سب کو شاید پہلے بھی پتہ ہوں یا ہم نے جمعہ وعید یں کے خطبات میں علمائے کرام سے سنی ہوں لیکن ہم لوگ وقتی طور پر بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور دل میں سوچتے ہیں کہ اب کبھی بھی اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کریں گے اور ان کی خدمت اور عزت واکرام میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے لیکن مسجد سے باہر نکلتے ہی ہم سب باتیں بھول جاتے ہیں اور گھر پہنچتے ہی اپنے اپنے موبائل فون میں کھو جاتے ہیں یا ٹی وی پروگرام دیکھنا شروع کر دیتے ہیں چاہے اس دوران ہمارے بوڑھے والدین اکیلے بیٹھے ہوں یا ان کو ہماری ضرورت ہو۔ ہم لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کل ماں باپ بنیں گے اور بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں گے تو کیا ہم لوگ جو آج اپنے والدین سے سلوک کر رہے ہیں کیا وہ ہماری اولاد یں بھی ایسا ہی نہیں کریں گی ۔اگر آج ہم اپنے ماں باپ کو وقت نہیں دے پاتے ،ان کے ساتھ لمحات نہیں گزار سکتے تو کیا کل ہماری آنے والی نسل کے پاس ان موبائل فونز سے زیادہ بہتر اور جدید ایجادات میسر نہ ہوں گی جس میں وہ بالکل مگن ہونگے اورہمارے بڑھاپے کی جانب ان کا دھیان بالکل نہ ہو گا۔ اس وقت ان کیلئے ہمارا خیال رکھنا تو دور کی بات ہمارے لیے چند لمحے نکالنا بھی ممکن ہو گا؟یہ کیا ہو گیا ہے ہماری ان نوجوان نسل کو؟کچھ احساس کرو اور اس دوڑ سے نکل باہر آؤ ان موبائل فونز کی دنیا سے اور دیکھو تمہارے بوڑھے والدین اس وقت کس حالت میں ہیں اور ان کو تمہاری کتنی ضرورت ہے ۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ دہرانا پڑرہا ہے کہ آج اپنی اولاد ہی اپنے ماں باپ کو بات بات پرجھڑ ک دیتے ہیں اور تیز وتندتلخ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ایسی اولاد کسی اور بزرگ کی کیا خاک عزت کرے گی۔ہم اکثر بازاروں میں دیکھتے ہیں کہ بزرگ ہمارے والدین کی عمر کے یا ان سے بھی بڑی عمر والے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور ان کا جو حال ہوتا ہے وہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور ان پر رحم وترس آتا ہے کیا وہ انسان نہیں ہیں کیا وہ عزت واحترام کے حق دار نہیں ہیں۔ والدین کی خدمت کرنا یا ان سے اخلاق سے پیش آنا ایسا عمل ہے جس میں کسی قسم کی کوئی محنت یا مشقت نہیں کرنی پڑتی کیونکہ ماں باپ سے فطری طور پر بھی انسان کو محبت اور لگاؤ ہوتا ہے اس لئے ان کی خدمت اور عزت کرنے پر دل خود ہی مائل ہوجاتا ہے ۔ بس ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور والدین کیلئے تھوڑا سا ٹائم نکالیں اور سوچیں کہ اس عمل سے ہماری دنیا اور آخرت بہتر ہوگی۔ہمارے والدین کبھی بھی ہم سے ایسا کام لینا پسند نہیں کریں گے جس سے ہمیں پریشانی ہو یا ہمیں زیادہ مشقت اٹھانی پڑے۔ یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا چلوں ایک مزدور سخت دھوپ میں مزدوری کررہا تھا اور اس کا والد اس کو دیکھ رہا تھا اور کہ رہا تھاکہ بیٹا بس کرو اور تھوڑی دیر چھاؤں میں آجاؤ لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا کہ ابا جی کچھ نہیں ہوتا تو پھر اس کے والد نے اس کے چھوٹے سے بیٹے کو دھوپ میں کھڑا کر دیا تو وہ مزدور فوری طورپر کام چھوڑ کر بھاگتا ہوا آیا اور اپنے بیٹے کو اٹھا کر چھاؤں میں لے گیا اور تڑپتے ہوئے کہنے لگا ابا جی اتنی دھوپ میں آپ نے اس کو کیوں کھڑا کر دیا تو اس کے والد نے کہا بیٹا جیسے تجھے اپنے بیٹے کے دھوپ میں کھڑے ہونے پر دکھ اور تکلیف ہوئی ہے اس طرح تم بھی میرے بیٹے ہو اور مجھے بھی اتنی ہی تکلیف اور دکھ ہوتا ہے کہ تم دھوپ میں اور گرمی میں کام کررہے ہو۔ خدا کیلئے اپنے والدین کا احساس کریں ان کو چند لمحے ضرور فراہم کریں ۔ان سے باتیں کریں ان کی ضروریات کا خیال کریں شاید کل آنے والی نسل بھی ہمارا خیال کرے جب ہم کمزور ہونگے۔اولاد کو چاہئے کہ والدین کی بات غور سے سنیں ،ماں باپ جب کھڑے ہوں تو ان کے احترام وتعظیم میں کھڑے ہو جائیں،جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فوراً عمل کریں ان دونوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں ،نرم دلی سے ان کیلئے عاجزی کا بازو بچھائیں،ان کے ساتھ بھلائی کریں اور ان پر احسان نہ جتلائیں۔ والدین کے علاوہ ہمیں چاہئے کہ اپنے محلے کے بزرگوں کا احترام بھی کریں اور اگرہم سفر کررہے ہیں تو کوئی بھی بزرگ ہمیں کھڑا نظر آئے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اس کا احترام کریں اور اسے بیٹھنے کی جگہ دیں۔ اگر کوئی خاتون کھڑی ہوتو بھی ہمارا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم ان کا احترام کرتے ہوئے ان کو جگہ دیں۔ کوئی عمر رسیدہ بھکاری ملے تو ہم اگر اس کی کچھ مالی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کی عزت توکر سکتے ہیں اس کو ادب واحترام سے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنے خزانے سے عطا فرمائے ہماری مشکلیں آسان فرمائے بجائے اس کے کہ ہم اس کو دھتکاریں یا حقارت کی نظر سے دیکھیں اور اس کو بے عزتی سے جھڑک دیں۔ آج ہم اگر کسی کا احترام کریں گے تو کل ہمارے والدین ہماری ماں ،بہن اور بیٹی کو بھی اسی طرح عزت ملے گی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں اپنے احکامات کی پابندی کرنے اور بالخصوص نوجوان نسل کو اپنے والدین اور بزرگوں کی خدمت کرنے والا بنائے۔آمین!
اگر تمہارے سامنے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ نرم دلی وعجزو انکساری سے پیش آنا“۔اسی طرح ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:”بڑوں کی تعظیم دتوقیرکرو اور چھوٹوں پر شفقت کروگے تو تم جنت میں میری رفاقت پالوگے۔ “ آج کل کے نوجوان بچے جو اپنے ہی والدین کو جھڑک دیتے ہیں تو یہ دوسرے کسی اور بزرگ کا احترام کیسے کریں گے؟اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کو جھڑکنے کے عمل کو سخت نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :“ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیروبرکت ہے۔پس وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی بے ادبی کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے۔ جس طرح اللہ پاک کی نعمتوں کا شمار کرنا ناممکن ہے اسی طرح والدین کے پیار کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ یہ واحد رشتہ ہے جس میں لالچ وحرص نہیں ہے بلکہ بے پناہ خلوص پیاراور محبت ہوتی ہے۔ماں باپ کتنی محنت اور ناز نخرے سے اپنی اولاد کو پالتے ہیں اور جو مشکلات ماں باپ برداشت کرتے ہیں ،اولاد اگر ساری زندگی ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر بھی خدمت کرے تو بھی ماں کی ایک رات کی تکلیف کا سلسلہ نہیں دے سکتی۔اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اللہ رب العزت نے جتنے بھی حقوق العباد کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے زیادہ اہمیت والدین کے حقوق کودی ہے ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ والدین سے بڑھ کرواجب الاحترام اور کوئی رشتہ نہیں۔ والدین کی خدمت وعزت واحترام کوجہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد پر جانے کی اجازت طلب فرمائی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟اس صحابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:جی ہاں دونوں حیات ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم جاؤ اور انہی کی خدمت کرو۔ ایک اورا ہم بات بھی کرتا چلوں کہ خطبہ کیلئے ہمارے آقا رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں منبر پر چڑھ رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا:آمین!جب دوسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا:آمین اور جب تیسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو پھرکہا :آمین!صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نہایت ادب واحترام سے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!یہ کیا ماجرا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے تھے اور انہوں نے کہا کہ وہ شخص تباہ وبرباد ہو جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت نہ کی تو میں نے کہا آمین۔ اور پھر حضرت جبرائیل امین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ شخص تباہ وبرباد ہو جس نے رمضان کے روزوں کو پایااور نہ رکھے تو میں نے کہا آمین۔اور پھرجبرائیل امین علیہ السلام نے کہا کہ وہ شخص بھی تباہ وبرباد ہو جس کے سامنے میرانام لیا گیا اور اس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا ،تومیں نے کہا آمین ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی تباہی و بربادی کی خبر دے دی جس نے اپنے والدین کی خدمت نہ کی۔ ہمارے آقا رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ جس نے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی اولاد جب بھی رحمت و محبت کی نظر سے ماں باپ کو دیکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہر نظر پر ایک مقبول حج کا ثواب عطا فرماتاہے۔ مندرجہ بالاباتیں ہم سب کو شاید پہلے بھی پتہ ہوں یا ہم نے جمعہ وعید یں کے خطبات میں علمائے کرام سے سنی ہوں لیکن ہم لوگ وقتی طور پر بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور دل میں سوچتے ہیں کہ اب کبھی بھی اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کریں گے اور ان کی خدمت اور عزت واکرام میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے لیکن مسجد سے باہر نکلتے ہی ہم سب باتیں بھول جاتے ہیں اور گھر پہنچتے ہی اپنے اپنے موبائل فون میں کھو جاتے ہیں یا ٹی وی پروگرام دیکھنا شروع کر دیتے ہیں چاہے اس دوران ہمارے بوڑھے والدین اکیلے بیٹھے ہوں یا ان کو ہماری ضرورت ہو۔ ہم لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کل ماں باپ بنیں گے اور بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں گے تو کیا ہم لوگ جو آج اپنے والدین سے سلوک کر رہے ہیں کیا وہ ہماری اولاد یں بھی ایسا ہی نہیں کریں گی ۔اگر آج ہم اپنے ماں باپ کو وقت نہیں دے پاتے ،ان کے ساتھ لمحات نہیں گزار سکتے تو کیا کل ہماری آنے والی نسل کے پاس ان موبائل فونز سے زیادہ بہتر اور جدید ایجادات میسر نہ ہوں گی جس میں وہ بالکل مگن ہونگے اورہمارے بڑھاپے کی جانب ان کا دھیان بالکل نہ ہو گا۔ اس وقت ان کیلئے ہمارا خیال رکھنا تو دور کی بات ہمارے لیے چند لمحے نکالنا بھی ممکن ہو گا؟یہ کیا ہو گیا ہے ہماری ان نوجوان نسل کو؟کچھ احساس کرو اور اس دوڑ سے نکل باہر آؤ ان موبائل فونز کی دنیا سے اور دیکھو تمہارے بوڑھے والدین اس وقت کس حالت میں ہیں اور ان کو تمہاری کتنی ضرورت ہے ۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ دہرانا پڑرہا ہے کہ آج اپنی اولاد ہی اپنے ماں باپ کو بات بات پرجھڑ ک دیتے ہیں اور تیز وتندتلخ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ایسی اولاد کسی اور بزرگ کی کیا خاک عزت کرے گی۔ہم اکثر بازاروں میں دیکھتے ہیں کہ بزرگ ہمارے والدین کی عمر کے یا ان سے بھی بڑی عمر والے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور ان کا جو حال ہوتا ہے وہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور ان پر رحم وترس آتا ہے کیا وہ انسان نہیں ہیں کیا وہ عزت واحترام کے حق دار نہیں ہیں۔ والدین کی خدمت کرنا یا ان سے اخلاق سے پیش آنا ایسا عمل ہے جس میں کسی قسم کی کوئی محنت یا مشقت نہیں کرنی پڑتی کیونکہ ماں باپ سے فطری طور پر بھی انسان کو محبت اور لگاؤ ہوتا ہے اس لئے ان کی خدمت اور عزت کرنے پر دل خود ہی مائل ہوجاتا ہے ۔ بس ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور والدین کیلئے تھوڑا سا ٹائم نکالیں اور سوچیں کہ اس عمل سے ہماری دنیا اور آخرت بہتر ہوگی۔ہمارے والدین کبھی بھی ہم سے ایسا کام لینا پسند نہیں کریں گے جس سے ہمیں پریشانی ہو یا ہمیں زیادہ مشقت اٹھانی پڑے۔ یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا چلوں ایک مزدور سخت دھوپ میں مزدوری کررہا تھا اور اس کا والد اس کو دیکھ رہا تھا اور کہ رہا تھاکہ بیٹا بس کرو اور تھوڑی دیر چھاؤں میں آجاؤ لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا کہ ابا جی کچھ نہیں ہوتا تو پھر اس کے والد نے اس کے چھوٹے سے بیٹے کو دھوپ میں کھڑا کر دیا تو وہ مزدور فوری طورپر کام چھوڑ کر بھاگتا ہوا آیا اور اپنے بیٹے کو اٹھا کر چھاؤں میں لے گیا اور تڑپتے ہوئے کہنے لگا ابا جی اتنی دھوپ میں آپ نے اس کو کیوں کھڑا کر دیا تو اس کے والد نے کہا بیٹا جیسے تجھے اپنے بیٹے کے دھوپ میں کھڑے ہونے پر دکھ اور تکلیف ہوئی ہے اس طرح تم بھی میرے بیٹے ہو اور مجھے بھی اتنی ہی تکلیف اور دکھ ہوتا ہے کہ تم دھوپ میں اور گرمی میں کام کررہے ہو۔ خدا کیلئے اپنے والدین کا احساس کریں ان کو چند لمحے ضرور فراہم کریں ۔ان سے باتیں کریں ان کی ضروریات کا خیال کریں شاید کل آنے والی نسل بھی ہمارا خیال کرے جب ہم کمزور ہونگے۔اولاد کو چاہئے کہ والدین کی بات غور سے سنیں ،ماں باپ جب کھڑے ہوں تو ان کے احترام وتعظیم میں کھڑے ہو جائیں،جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فوراً عمل کریں ان دونوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں ،نرم دلی سے ان کیلئے عاجزی کا بازو بچھائیں،ان کے ساتھ بھلائی کریں اور ان پر احسان نہ جتلائیں۔ والدین کے علاوہ ہمیں چاہئے کہ اپنے محلے کے بزرگوں کا احترام بھی کریں اور اگرہم سفر کررہے ہیں تو کوئی بھی بزرگ ہمیں کھڑا نظر آئے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اس کا احترام کریں اور اسے بیٹھنے کی جگہ دیں۔ اگر کوئی خاتون کھڑی ہوتو بھی ہمارا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم ان کا احترام کرتے ہوئے ان کو جگہ دیں۔ کوئی عمر رسیدہ بھکاری ملے تو ہم اگر اس کی کچھ مالی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کی عزت توکر سکتے ہیں اس کو ادب واحترام سے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنے خزانے سے عطا فرمائے ہماری مشکلیں آسان فرمائے بجائے اس کے کہ ہم اس کو دھتکاریں یا حقارت کی نظر سے دیکھیں اور اس کو بے عزتی سے جھڑک دیں۔ آج ہم اگر کسی کا احترام کریں گے تو کل ہمارے والدین ہماری ماں ،بہن اور بیٹی کو بھی اسی طرح عزت ملے گی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں اپنے احکامات کی پابندی کرنے اور بالخصوص نوجوان نسل کو اپنے والدین اور بزرگوں کی خدمت کرنے والا بنائے۔آمین!
0 کمنٹس:
ایک تبصرہ شائع کریں